Welcome TO Global View. We bring you to the latest updates on current affairs, Fashion, Entertainment & Sports.

Monday, 11 November 2013

کراچی:کمپیوٹرائزڈ ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء شروع



    1. کراچی...افضل ندیم ڈوگر...بین الاقوامی سفر کرنے والے شہریوں کے لئے خوشخبری ہے کہ کراچی میں کتابی شکل کے انٹرنیشنل ڈرائیونگ لائسنس کی جگہ کمپیوٹرائزڈ ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء شروع کردیا گیا ہے۔ کراچی کی کلفٹن ڈرائیونگ لائسنس برانچ میں قائم کئے گئے انٹرنیشنل ڈرائیونگ پرمٹ سسٹم کا افتتاح ایڈیشنل آئی جی ٹریفک غلام قادر تھیبو نے کیا۔ پہلا انٹرنیشنل لائسنس بھی ایڈیشنل آئی جی ٹریفک کا ہی بنایا گیا۔ نیا انٹرنیشل لائسنس مقامی کمپیوٹرائزڈ ڈرائیونگ لائسنس رکھنے والے شہریوں کا ہی بنایا جائے گا۔ جس کیلئے پاسپورٹ اور کسی بھی ملک کا ویزہ ہونا ضروری ہوگا۔ ایک ہزار 50روپے فیس ادا کرکے ملنے والا یہ لائسنس ایک سال کے لئے دنیا بھر میں قابل قبول ہوگا۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو نے کہا کہ کراچی میں ڈرائیونگ لائسنس کی برانچ ہر ضلع میں قائم کی جارہی ہے جبکہ موبائل ڈرائیونگ لائسنس برانچ بھی ایک ہفتے بعد کام شروع کردے گی۔

      Veena Malik warn Sheikh Rasheed again

      کربلائی نفسیات!




      کربلائی نفسیات!


      اسلام حق و باطل کا ایک وضح تصور رکھتا ہے۔ اللہ ہمارا خالق، مالک اور پروردگار ہے اور اس بنیاد پر اللہ کے کچھ حقوق ہیں جو کہ صرف اور صرف اللہ کے لئے خاص ہیں۔اللہ کے ان حقوق کو تسلیم نہ کرنا یا ان میں دوسروں کوشریک کرنا شرک فی العبودیت کہلاتا ہے ۔ دنیا میں جتنے بھی انبیاء علیم السلام آئے وہ سب کے سب اسی پیغام کے ساتھ آئے کہ اللہ کے حقوق کو تسلیم کیا جائے اور ان حقوق میں کسی دوسرے کو شریک نہ کیا جائے۔ اسی طرح اللہ کے مبعوث کئے ہوئے انبیاء کو خوش دلی کے ساتھ قبول کرنا اللہ کے دین کا دوسرا بنیادی جزو بن جاتا ہے۔ یعنی اللہ نے اپنے کچھ بندوں کو چن لیا ہے تاکہ وہ اللہ کے حقوق کے بارے میں اس کے بندوں کو بتائیں اور ان حقوق کو پورا کرنے کا عملی نمونہ پیش کریں۔ان انبیاء کی نبوت کو تسلیم کرنا بھی اللہ کا ایک بنیادی حق ہے۔ اللہ کے حقوق میں ایک اہم چیز یہ بھی شامل ہے کہ بغیر علم کے ہم اللہ بارے میں کچھ نہ کہیں۔
      اب اگر کوئی اللہ کے حقوق کو تسلیم نہیں کرتا یا ان حقوق کو صرف اللہ کے حقوق ماننے کے بجائے غیراللہ سے بھی منسوب کرتا ہے اور واضح نشانیوں کے باوجود اللہ کے ان چنے ہوئے بندوں کو بلا جواز رد کردیتا ہے تو یہی باطل ہے۔
      ایک طرف انبیاء علیہم السلام ہیں جنہوں نے لوگوں کو حق کی دعوت دی اور دوسری طرف شیاطین ہیں جو پورا زور لگا رہے ہیں کہ حضرت انسان کسی طرح سے اللہ کے حقوق کو رد کردے یا ان حقوق میں دوسروں کو بھی شریک کرے۔ یہ ہے وہ ابتدائے آفرینش سے چلے آئی حق و باطل کی کشمکش۔ اگر اللہ چاہتا تو حق کواپنی تمام مخلوقات پربزور مسلط کردیتا۔ لیکن اللہ کی یہ منشاء ہے کہ انسان اپنے انتخاب سے شعوری طور پراللہ کو مانے اور اس کے حقوق کو پہچانے اور اس کے منتخب نمائندوں کی اطاعت کرے۔اسطرح یہ دنیا ایک طرح سے رزم گاہ حق و باطل ہے جس میں قیامت تک کے لئے خیر و شر کی جنگ جاری رہے گی۔
      ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
      چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
      حق ایک واضح اور بین پیغام ہے اور انسانی فطرت کے اندر حق کو پہچاننے اور قبول کرنے کا مادہ موجود ہے۔اس جنگ میں جو بھی باطل کے علمبردار ہیں ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ حق و باطل کے درمیان جو معرکہ برپاہے وہ واضح نہ ہونے پائےتاکہ انسان اپنی فطرت سے اس حق کو پہچان ہی نہ پائے۔ یا اگر کہیں کشمکش نظر بھی آئے تو انبیاء علیہم السلام کی برپا کی ہوئی کشمکش کے بجائے کچھ اور ہی کشمکش نظر آئے جس میں حق سرے سے غائب ہو۔یعنی باطل کی دو اقسام کی کشمکش نظر آئے جس میں انسان یہ سمجھے کہ یہ حق و باطل کی جنگ ہے اور پھر وہ اپنے آپ کو مجبور پائے کہ ان دو باطلوں میں سے کسی ایک باطل کو قبول کرے۔یا اگر کہیں لا محالہ حق و باطل کی کشمکش واضح طور پر نظر آ بھی جائے تو حق کا صحیح پیغام عوام تک پہونچے ہی نہیں یا اگر پہونچ بھی جائے تو وہ باطل کے میڈیم سے پہونچے اور ان شیطانی قوتوں کو پورا اختیار ہو کہ وہ جس طرح چاہے اس طرح حق کے پیغام کو اپنی مرضی سےپیش کریں۔یہی وہ تلبیس ہے جو باطل کو پھیلانے کی ہر کوشش میں کارفرما ہے۔
      انسان کے اندر بہت سی ذہنی اور نفسیاتی صلاحیتیں ہوتی ہیں اور چونکہ اس خاکی انسان میں شر اور خیر کے دونوں رجحانات رکھے گئے ہیں اس لئے اس کی یہ صلاحیتیں کبھی حق کے لئے استعمال ہوتی ہے تو کبھی باطل کے لئے۔ ان انسانی خصوصیات کو تلبیس حق اور باطل کے لئے استعمال کرنے کی ایک زندہ اور بھر پور مثال روافض کے مقدمے میں نظر آتی ہے۔احساس مظلومیت ایک قسم کی تحریک ہے جو انسان کو بہت کچھ کرنے پر اکساتی ہے۔ یہ عمل منفی بھی ہوسکتا ہے اور مثبت بھی۔اور جب احساس مظلومیت شدت اختیار کرتا ہے تو یہ کسی فرد کومشتعل بھی کردیتا ہے جس کا نتیجہ صرف منفی ہوتا ہے۔ شدید اشتعال میں یہ احساس یہ رخ بھی اختیار کرلیتا ہے کہ ایک شخص یہ فیصلہ کرنے کے قابل ہی نہیں رہتاکہ جس بات پر اس کو اشتعال آیا ہوا ہے اس کی کوئی حقیقت ہے بھی یا نہیں۔ بلکہ بار بار اس طرح مشتعل ہونا اور شدید قسم کے احساس مظلومیت کا شکارہونے کے بعد وہ اس حد تک خود فریبی کا شکا ہوجاتا ہے کہ اس کے لئے اس سے متعلق کسی بھی چیز کو سنجیدگی اور معروضی انداز میں دیکھنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جاننے کے باوجود ایک فرد ایسے کسی رخ پر سوچتے ہوئے بھی ڈرتا ہےجس سے اب تک اس کا اس طرح شدید جذباتی ہوجانا حماقت اور بے معنی نظر آنے لگے۔ جب اس طرح کے احساس کو زندہ رکھنے کی مکرر کوشش کی جاتی ہے تو پھر یہ احساس مظلومیت ایک نشہ کی شکل اختیار کرجاتا ہے جس کے بارے میں سوچ سوچ کر ایک فرد مخصوص قسم کی لذت حاصل کرتا ہے۔
      صدیوں سے اہل تشیع نے واقعہ کربلا کو اس طرح کے اشتعال انگیز احساس مظلومیت کو زندہ رکھنے کے لئے استعمال کیا ہوا ہے۔اس احساس مظلومیت کو زندہ رکھنے کے لئے جو بھی لوازمات ہو سکتے ہیں اس کو وافر انداز میں فراہم بھی کیا گیا ہے۔ پورے اہتمام سے ماتم کی مجلسیں سجانا، مخصوص قسم کے جذباتی انداز میں تقاریر کرنا، کچھ سچے جھوٹے واقعات اپنے مخصوص ہذیانی انداز میں بیان کرنا، سیرت اور بعد کے واقعات کی ایسی عجیب و غریب تعبیرات بیان کرنا گویا کوئی بہت بڑا سراغ ہاتھ آیا ہو، ماتم کے نام پر خود اذیتی کے جلسے کرنا اور باقاعدہ لوہے کے ہتھیاروں سے اپنے آپ کو زخمی کرنا اور ان سب کو پابندی کی ساتھ ہر سال دہرانا اور بچپن سے ہی ہرکسی کو اس کا عادی بنایا۔ یہ سب اعمال ظاہر ہے انسانی نفسیات پر بڑے گہرے اور دور رس اثرات چھوڑتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ اس طرح منظم انداز میں انسانی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے گویا کہ اس کے لئے باقاعدہ پلاننگ کی گئی ہو۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ ایک بار انسانی ذہن اور فکری صلاحیت غلط راستے پر پڑ گئی تو کثیر انسانی تعداد کی ذہنی استعداد اس اندھے اور مشتعل کردینے والے احساس مظلومیت کی آبیاری میں شدت پیدا کرنے کے لئےآپ سے آپ استعمال ہوتی چلی گئی۔ اس نفسیاتی مرض کی شدت کچھ ایسی ہے کہ ہر مذہبی رافضی اس میں مبتلا ہےقطع نظر اس سے کہ اس کی ذہانت اور تعلیم کس درجے کی ہے۔ یہاں تک کہ رافضہ میں جو دیندار نہیں ہوتے ان کی بھی بڑی تعداد اسی احساس مظلومیت میں پناہ لیتی نظر آتی ہے اگر چیکہ اپنے مذہب پر عمل کرنے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ برصغیر میں ترقی پسند تحریک کے کچھ بڑے نام بھی شیعی پس منظر رکھتے ہیں لیکن وہ بھی صدیوں سے چلے آئے ان احمقانہ اشغال پر خاموش نظر آتے ہیں۔
      سورہ ابراہیم آیت نمبر ۲۷ میں اللہ تعالی خود فرماتا ہے کہ وہ ظالموں کو گمراہ کرتا ہے اور سورہ غافر کی آیت ۷۴۔۷۵ میں زیادہ وضاحت آئی ہے کہ ان کے عذاب کی وجہ ناحق پرمگن ہونا اور اترانا ہے۔ سورہ غافر آیت نمبر ۳۴ میں اللہ فرماتا ہے کہ وہ حد سے بڑھنے والے اور شک کرنے والوں کو گمراہ کردیتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ظلم کرنا، ناحق پر مزے کرنا اور خوش ہونااور حد سے بڑھنا خود گمراہی ہے۔ لیکن آگے اللہ یہ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کو اللہ مزید گمراہ کردیتا ہے۔ یہ گمراہی کی ایک نفسیات ہے ۔ اللہ تعالی نہ صرف یہ فرماتا ہے کہ وہ گمراہوں کو مزید گمراہ کرتا ہے بلکہ یہ بھی ارشاد ہے کہ ان کے لئے یہ گمراہی مزین کردیتا ہے۔
      سورہ انعام کی ہی آیت نمبر ۱۲۲ میں ارشاد ہے۔
      بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لیے روشنی کر دی جس کے ذریعے سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھیرے میں پڑا ہوا ہو اور اس سے نکل ہی نہ سکے اسی طرح کافر جو عمل کر رہے ہیں وہ انہیں اچھے معلوم ہوتے ہیں ۔
      کافروں کو اپنے اعمال اچھے لگنے کے بارے میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ یوں رقمطراز ہیں۔
      یعنی جن لوگوں کے سامنے روشنی پیش کی جائے اور وہ اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیں ، جنھیں راہِ راست کی طرف دعوت دی جائے اور وہ اپنے ٹیڑھے راستوں ہی پر چلتے رہنے کو ترجیح دیں، ان کے لیے اللہ کا قانون یہی ہے کہ پھر انھیں تاریکی ہی اچھی معلوم ہونے لگتی ہے۔ وہ اندھوں کی طرح ٹٹول ٹٹول کر چلنا اور ٹھوکریں کھا کھا کر گِرنا ہی پسند کرتے ہیں۔ ان کو جھاڑیاں ہی باغ اور کانٹے ہی پھول نظر آتے ہیں۔ انھیں ہر بدکاری میں مزا آتا ہے ، ہر حماقت کو وہ تحقیق سمجھتے ہیں ، اور ہر فساد انگیز تجربہ کے بعد اْس سے بڑھ کر دْوسرے فساد انگیز تجربے کے لیے وہ اِس اْمّید پر تیار ہو جاتے ہیں کہ پہلے اتفاق سے دَہکتے ہوئے انگارے پر ہاتھ پڑ گیا تھا تو اب کے لعل بدخشاں ہاتھ آجائے گا۔
      اللہ نے پیغمبروں کے منکروں کے بارے میں فرمایا۔
      اور اسی طرح ہم نے شیطان (سیرت) انسانوں اور جنوں کو ہر پیغمبر کا دشمن بنا دیا تھا، وہ دھوکا دینے کے لیے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالتے رہتے تھے اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے تو ان کو اور جو کچھ یہ افتراء کرتے ہیں اسے چھوڑ دو ۔اور (وہ ایسے کام) اس لیے بھی (کرتے تھے) کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل ان کی باتوں پر مائل ہوں اور وہ انہیں پسند کریں اور جو کام وہ کرتے تھے وہ ہی کرنے لگیں۔ (سورہ انعام ۱۱۲۔۱۱۳)
      یہ ایک انسانی نفسیات کا مسئلہ ہے۔ جب کسی ذیباطیس کے مریض کے سامنے میڈیکل سائنس کی نئی ریسرچ پیش کی جائے کہ شکر کھانا صحت کے لئے نقصان دہ نہیں ہے تو ان میں کچھ ایسے ضرور ہونگے جن کا اس ریسرچ پربلا تحقیق یقین کرنے کو جی چاہے گا۔اسی طرح تقریباً تمام گمراہیاں نہ صرف اپنی گمراہی کے لئے جواز پیدا کرتی ہی بلکہ باقاعدہ رسم رواج، تحقیق ، مکالمات اور انسانی جذبات کو انگیخت کرنے لئے تحریری اور تقریری ادب بھی پیدا کرتی ہیں۔اور پھر ان مکالمات اور ادبیات کو مزید طاقتور بنانے کے لئے نت نئی تحقیقات بھی پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے تحقیق کی بنیاد پر ادب اور مکالمات بننے کے بجائے ان مکالمات کے تقاضوں کے تحت تحقیق بننی شروع ہوجاتی ہے۔
      گمراہیوں پر مزے لینا اور پھر رو رو کر ماتم کرکے شدید قسم کی احساس مظلومیت سے تلذذ حاصل کرنااور اس ماتم کے سرور کا اس حد تک عادی ہوجانا کہ ایسے کسی حق سے بھی خوف کھانا جس میں یہ آہ و بکا نہ ہوایک شاندار شیطانی کارنامہ ہے۔اہل تشیع کی ذکر کی مجلسیں ایسی ہی پر انگیخت اور جذباتی مکالمات سے پر ہوتی ہیں کہ اگر راسخ العقیدہ اہل سنت شخص بھی حاضری دے تو ان جذبات کے بہاؤ میں یہ بھی بہہ جائے۔ جذبات کی شدت کو ایسے مہمیز دی جاتی ہے کہ کسی عام آدمی کا ذہن اس طرف جا ہی نہیں سکتا کہ جو باتیں کہی جارہی ہیں وہ معقول، مستند اور تناقضات سے پاک ہیں بھی یا نہیں۔ بلکہ ادبیت، لفاظی اورجذباتیت پیدا ہی اس لئے کی جاتی ہے کہ کسی کا ذہن معروضی انداز میں سوچے ہی نہیں اور یہی لفاظی دلائل کے متبادل کا کام دیتی ہے۔
      ان ادبی مکالمات میں انبیاء کا پیش کیا ہوا مقدمہ سرے سے غائب ہوتا ہے۔ پورا کا پور دین حسینیت اور یزیدیت کے گرد گھومتا ہے۔ افراد کے اعتبار سے دیکھا جائے تو قرآن میں انبیاء علیہم الصلاہ والسلام کو حق کے نمائندے کے طور پر پیش کیا گیا ہے جبکہ فرعون، نمرود، ابولہب، اور کفارکے لیڈروں کو باطل کے نمائندوں کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اہل تشیع کے حق اور باطل کا مکمل تصور یزیدت اور حسینیت کے گرد گھومتا ہے جس کا تاریخی پس منظر کئی اعتبارات سے مشکوک ہے۔اس سے بڑی تلبیس اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک مشکوک واقعے کو حق و باطل کے طور پر پیش کیاجائےجس کی تصدیق قرآن سے نہ ہوسکتی ہو اور قرآن پاک میں پیش کئے گئے حق و باطل کے نمائندوں کو کلی طور پر نظر انداز کیا جائے؟ قرآن جنگ بدر کے دن کو یوم الفرقان قرار دیتا ہے جبکہ شیعیت کے عقائد کربلا کے گرد گھومتے ہیں۔اس سلسلے میں انسانی جذباتیت کے بعض عجیب و غریب کارنامے نظر آتے ہیں۔ سانحۂ کربلا کے واقع ہونے میں بنیادی کردار کوفہ کے شیعان علی کا رہا ہے اور یہ بات اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کےتاریخی ذخائر سے ثابت شدہ ہے۔ لیکن واقعہ کربلا بیان کرنے کے پورے تناظر میں یزید پر لعنتیں کرنا تو یاد رہتا ہے اور اہل کوفہ کی غداری بیان سے غائب ہوجاتی ہے۔
      کربلا کے واقعہ کے تناظر میں حضرت حسین، علی بن حسین اور زینب بنت علی کی جذباتی اور فصاحت و بلاغت سے بھرپور تقاریر بھی پائی جاتی ہیں ۔ اہل تشیع کی روایات کے مطابق وہ تقاریر عین میدان جنگ میں اور یزید کے دربار تک میں کی گئیں۔قطع نظر اس سے کہ ان تقاریر کی اسانید کی کیا حقیقت ہے، یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی فوج اپنے حریف کو خود انہیں کو مخاطب کر کے ایسی زبردست تقاریر کرنے کی اجاازت دے؟ جبکہ اسی فوج پر نواسۂ رسولؓ اور ان کے پورے خاندان کے قتل کا الزام بھی ہو؟ صاف بات ہے کہ ذاکرین کی مجلسیں گرمانے کے لئےایساشدید اور لفاظی سے بھرپور ادب اس مذہب کا لازمی تقاضا ہے۔ادبیات کی لفاظی، ہیجانی مکالمات، جذباتی شاعری، دور کی کوڑیاں اور نکتوں سے نکتے نکال کر کی ہوئی تقاریر، یہ اہل تشیع کے وہ زخرف القول(۱) ہیں جس کے ذریعے انسانوں کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ماؤف ہوجاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آدم ؑ سے لے کرنبی آخرالزماںﷺ تک شیطان نے انسانی نفسیات کا مطالعہ و مشاہدہ کر کے جو نتائج اخذ کئے ہیں اس کو بھرپور انداز میں اس رافضی ہیجانیات کی تخلیق میں استعمال کیا ہے۔
      الغرض ایک اجتماعی پیرانوئیا(۲)  (Paranoia) کی کیفیت ہے جو ہر بڑے چھوٹے, خاص و عام، عالم و جاہل پر یکساں مسلط ہے۔پھراس ہیجانیات نے وہ وہ ہوشربا کارنامے انجام دئے کہ انسانی عقل ششدر رہ جائے۔ایک بار اس نفسیات کی بنیاد پڑ گئی تو پھر یہ بیک ٹریک(backtrack) پر چلی گئی اور نئی روایات گڑھ کر اپنی اس مظلومیانہ نفسیات کے لئے نئی تاریخ بھی پیدا کرتی چلی گئی۔ پہلے چراغ مصطفوی اور شرار بولہبی کا معرکہ حسینیت اور یزیدیت میں تبدیل ہوگیا اور پھر خلافت بمقابلہ خفیہ امامت کی شکل اختیار کر گیا۔ حضرت عثمانؓ اور پھر حضرت حسینؓ کی مظلومانہ شہادت کے نتیجے میں جو انتشار پیدا ہوا وہاں سے حضرت عمرؓ اور حضرت ابوبکرؓ کا حساب کتاب بھی شروع ہوجاتا ہے۔ پھر ان اصحاب کے تمام کارناموں کو یا تو نظر انداز کیا جاتا ہے یا انہیں کارناموں کوان کی برائیاں ثابت کی جاتی ہے۔ پھر ایک قدم مزید پیچھے جاکر نبوت تک کی تاویل اس انداز سے کی جاتی ہے کہ گویا نبیﷺ اس دنیا میں صرف اپنی" خاندانی سیادت" قائم کرنے کے لئے تشریف لائے تھے۔ باقی توحید و شرک کا مسئلہ دین سے سرے سے غائب، بلکہ اسی اہل بیت کی ارتکازیت کے شوق میں "معصومین" سے دعائیں بھی ہوتی ہے بلکہ انہیں اللہ کی ربوبیت کا شریک بھی قراردیا جاتا ہے۔
      ایک طویل عرصے تک یہ مظلومانہ نفسیات کا طلسم اندر ہی اندر غیر محسوس انداز میں شدت اختیار کرتا رہا ہے جس کا اندازہ اہل سنت کو طویل عرصے تک نہیں ہوسکا۔پچھلی دو صدیوں سے طاری سیکولرزم اور کئی صدیوں سے جاری تصوف نے اس مخفی جذبے کی نشؤنما کے لئے بہت ہی سازگار ماحول فراہم کیا۔ چونکہ یزید تو کب کا مر کھپ چکا تھا اس لئے اس شدت احساس کو باقی رکھنے کے ایک زندہ دشمن کی ضرورت تھی۔ اسلئے محرم میں ماتم نہ کرنے والے، صحابہ کے نام لیوااورمعصومین کی عبادت سے گریزاں، یعنی اہل سنت ہی انکی اس بیمار نفسیات کے نشانے پر رہے۔ یہ اتنے طویل عرصے تک اس قوم پر یہ شیطان کی انوسٹمنٹ تھی ۔ وہ فتنہ جس کا بیج مدینے کے منافقوں نے بویا تھا، پھر جسے عبد اللہ ابن سبا نے نشؤنما دی، پھر شہادت حسین جیسے افسوسناک واقعے نےجسے مزید پانی فراہم کیا، صفویوں کے دور میں جس کی خوب آبیاری کی گئی، سیکولرزم اور جدت پسندی کے فتنے نے جس کو خفیہ انداز میں اندر سے مضبوط ہونے کا موقعہ فراہم کیا وہ آخر میں ایران کے "اسلامی" انقلاب کے نتیجے میں تقیہ کے جامے سے باہر آگیا۔ اب یہ فصل پک کر تیار تھی۔ شیطان بزرگ اور اسرائیل کے خلاف زبان درازیاں کر کرکے یہ مسلمانوں کی نمائندہ بننے کی بہت کوشش کرچکی ہے۔ لیکن افغانستان، عراق اور شام میں اس پکی پکائی فصل نے جو کارنامے انجام دئے اس سے سب کی آنکھوں پر پڑا ہوا پردہ ہٹ جانا چاہئے۔ اور اب شام میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے بعد ہوش کے ناخن لے ہی لینے چاہئے۔ وقت نے ثابت کردیا کہ ضرورت پڑی تو شیطان بزرگ سے بھی اور شیطان کوچک (روس) سے بھی اتحاد ممکن ہے اور ان کا جو بھی اتحاد ہوگا اس کا مقصد اہل سنت کو نشانے پر رکھنا ہے۔ جن کے یہاں پر ابوجہل، ابو لہب اور فرعون کے بجائے حضرات شیخین اور امہات المؤمنین باطل کی علامات ٹہریں ان سے اور توقع بھی کیا رکھی جاسکتی ہے۔

      ۱۔ زخرف القول یعنی ملمع کی ہوئی باتیں، یہ الفاظ اوپر مذکورآیت سورہ انعام ۱۱۲ میں موجود ہیں۔
      ۲۔پیرانوئیا (paranoia) ایک نفسیاتی کامپلیکس ہے جس سے متاثر شخص پر اپنے بارے میں شدید اور نامعقول حد مظلومیت کا احساس مسلط ہوجاتا ہے۔ ایسے شخص کو پیرانوئڈ (Paranoid) کہتے ہیں۔ یہ ایک خود فریبی کی کیفیت ہوتی ہے جس میں دوسرے فریق کی ہر حرکت کے پیچھے اسے اپنے خلاف کوئی سازش نظر آتی ہے۔ ایک واقعہ جس کو عام آدمی اتفاق سمجھتا ہو اسے ایک پیرانوئڈ شخص کڑیوں سے کڑیاں ملا کر ایک بہت بڑی سازش کے طور پر دیکھ سکتا ہے۔ اکثر سازشی نظریات بھی اسی کامپلیکس کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔
       

      Petition Filed Against Zaid Hamid In Supreme Court

      Live Match between Pakistan and South Africa


      اس ویڈہوکواتناشیرکروکےہرپاکستانی دہکھ لے


      Eleven Ministers of KPK Dismissed on Corruption Charges

      Peshawar: PTI chief Imran dismissed eleven ministers of Khyber Pakhtunkhwa due to corruption charges.
      corruption charges proved and announcement of this action expected soon.
      Read the full story below:

      Imran Khan Dismiss KPK Ministers on Corruption Charges